بھارتی حکومت کی زیر نگرانی چلنے والی دنیا کی سب سے بڑی افیوں ساز سرکاری فیکَٹری جس سے بھارتی حکومت کو ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے



Ghazipur

فیکٹری  بھارت کے شہر غازی پور میں واقع دنیا کی سب سے بڑی افیون کی فیکٹری جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ افیون کی ایکسپورٹ کے حوالے سے دنیا بھر میں معروف ہے  افیون کی سب سے زیادہ برآمد کرنے والی اس فیکٹری کی سنگ بنیاد اب سے  
 تقریبا دو صدیوں قبل برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائیریکٹروں نے ڈالی تھی جو آج دنیا کی سب سے بڑی قانونی افیون کی فیکٹری ہے.


بھارتی حکومت کے  کنٹرول میں کام کرنے والی ایک دوسری افیون ساز فیکٹری کا بیرونی منظر


بھارتی ریاست اتر پردیش کے شمال مشرق میں واقع غازی پور
 کے شہر میں کام کرنے والی یہ افیون ساز فیکٹری اگر چہ کہ  بھارتی حکومت کی بھر پور کوششوں کے نتیجے مِں پراسراریت کے دبیز پردوں مِں پوشیدہ  ہے مگر اس کے باوجود  ایک ممتاز بھارتی معیشت دان کے بقول بھارتی معیشت کے استحکام میں جس قدر اس 52ایکڑ پر محیط افیون ساز فیکٹری نے مثبت اثرات دالے ہیں اس قدر کسی دوسرے شعبے کی فیکٹری نے نہیں ڈالے ہیں 

بھارتی افیون بیرون ممالک ایکسپورٹ کے لیئے تیار

  بھارتی ریاست میں اتر پردیش کے شمال مشرق میں  میں واقع فیکٹری کی وجہ سے  بھارتی معیشت کو خصوصا بھارتی زرمبادلہ کے ذخائیر کو جس طرح تقویت  حاصل ہوتی ہے  وہ بھارتی اسٹیٹ بنک کے ایکسپوڑت کے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوجاتے ہیں 188سال قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت قائم کی جانے والی اس فیکٹری کو دریائے گنگا کے کنارے پر اس لیئے قائم کیا گیا تھا کہ فیکٹری مِیں  تیار کی جانے والی افیون کو  دریا میں چلائے جانے والی مال بردار کشتیوں کے ذریعے کلکتہ اور دیگر سمندری بندرگاہوں تک باآسانی لے جایا 

جائے گا۔



Ghazipur is located in Uttar Pradesh
بھارت کا نقشہ جس مِں  یو پی یااتر پردیش کی ریاست  کے نقشے مِں غازی پور کا شہر نظر آرہا ہے 







 اس وقت بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس فیکٹری سے بے انتہا آمدنی حاصل ہوتی تھی جو کہ آج بھی لندن میں قائم ہے مگر پھر چین میں چینی حکومت کی جانب سے افیون کی فروخت پرٹیکس اور پابندی عائد کیئے جانے کے نتیجے میں اور بین الاقوامی طور پر افیون کی فروخت اور پیداوار پر پابندی عائد کیئے جانے کے نتیجے میں برصغیر کی برٹش حکومت پابند ہوگئی کہ وہ لندن میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کے قوانین پر عمل کروائیں مگر اس کے باوجود ایسٹ انڈیا کمنی کے لندن کے دفاتر بدستور کام کرتے رہئے اور لندن اسٹاک ایکسچینج کمپنی کا ریکارڈ ان کی اس آمدنی کو جو وہ افیون اور دیگر سامان تجارت کے زریعے کماتے رہے ظاہر کرتا رہا      
 پھر 1947میں برٹش راج کے خاتمے کے بعد بھارتی حکومت نے اس دنیا کی سب سے بڑی افیون ساز فیکٹری کو اپنی سرپرستی میں لے لیا یہ بات قابل غور ہے کہ  بھارتی حکومت نے اپنی تحویل میں نہیں لیا ؟ اگر چہ کہ کمپنی کے مالکان ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ڈائیرکٹران کے بجائے بھارتی مالکان سے تبدیل ہوگئے یہ بات بھی قارئین کے لیئے انتہائی دلچسپ کا باعث ہوگا کہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی آج بھی لندن میں  قائم ہے اس کے دفاتر لندن میں ہیں  مگر اس کے مالکان اب انگریزوں کی  جگہ بھارتیوں مِیں تبدیل ہوچکے ہیں 

بھارتی شہر غازی پور میں واقع ایسٹ اندیا کمپنی کی قائم کردہ افیون کی فیکٹری جو آج بھی بھارتی حکومت کی زیر سرپرستی کام کررہہ ہے اور بھارتی حکومت کو ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ فراہم کرتی ہے 

بھارتی مقدس شہر بنارس سے 40کلو میٹر مشرق کی جانب گنگا کے کنارے  واقع 

 ا52یکڑرقبے پر محیط نوآبادیاتی دور کی یادگار
 سرخ اینٹوں کی فیکٹری میں 900 ملازمین اس وقت کام کررہے ہِں جب کی اس افیون کی فیکٹری کی افیون  امریکہ، جاپان، فرانس، اور سری لنکا جیسے ملکوں کو برآمد کی جاتی ہے اگرچہ کہ دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ  افیون کی 90 فی صد کے ساتھ $ 45m کا سالانہ کاروبار، ہے دواسازی کی استعمال کرتا ہے کے لئے ہے.
امریکہ اور جاپان اکیلے ہر سال فیکٹری سے افیون کی 200 سے 250 میٹرک ٹن درآمد. فیکٹری کے اندر فوٹوگرافی ممنوع اور سیکورٹی سخت ہے.
فیکٹری سرکاری مانک مکھرجی کہ بھارتی افیون "پاک" ہے اور انتہائی دواسازی  کے لیئے استعمال کی جارہی ہے مگر مکھر جی نے اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی کی ہر سال اگر چے فیکٹری کی مصنوعات مِیں اضافہ ہورہا ہے  مگر فیکٹری میں تیار کی جانے والی افیون کے لیئے خام مال کہاں سے حاصل کیا جارہا ہے یہ بات تو صاف واضح ہے کہ فیکٹری کی افیون کی مقدار ہر سال پہلے سے زیادہ ہی بڑھ رہی ہے جب یہ بات طے ہو تو پھر یہ بات بھی خود بخود طے ہوجاتی ہے کہ بھارت میں اس فیکٹری کی مصنوعات میں اضافہ کے لیئے یقینا افیون کی کاشت کے رقبے اور پیداوار میں بھی اضافہ کیا جارہا ہوگا اگر چہ کہ بھارتی حکومت کی جانب سے اسا پر نہ تو کوئی روشنی ڈالی جارہی ہے اور نہ ہی کسی طرح کے اعداد و شمار فراہم کیئے جارہے ہیں

 "گنگا کے کنارے پر، کووا مکھیوں کے طور پر بنارس ذیل میں 40 میل دور،  فیکٹری، یہ ایک افیون کی ٹکسال، جہاں اس معاملے کو بھارتی حکومت کے خزانے کو بھرنے میں ہیں کہ قیمتی کیک،کے".کی حیثیت حاصل ہے 
"افیون ایک سوچار کے چالان، ریجیمیںٹ کی طرف سے آتا ہے."

 Poppies کے سمندر میں اس کی تفصیل ہے. "فیکٹری بہت بڑاتھی: اس کے احاطے چالیس پانچ ایکڑ زمین کو احاطہ کرتا ہے اور متعدد آنگنوں، پانی کے ٹینک اور لوہے-roofed شیڈ کے ساتھ دو ملحقہ مرکبات، ہر ایک سے زائد پڑی.
"گنگا (گنگا دریا) نظر انداز کیا کہ قرون وسطی کے کلوں کی طرح، فیکٹری تاکہ موسمی سیلاب سے بچنے کے لئے کافی ہونے کی وجہ سے ہے جبکہ دریا کے لئے آسان رسائی حاصل کرنے کے طور پر واقع ہوئی".
بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سالانہ کئی 
کروڑ ڈالر کی آمدنی صرف افیون اور اس کی مصنوعات کے ایکسپورٹ کے نتیجے 
میں بھارتی حکومت کو حاصل ہوتی ہیں

بھارت کے مشہور علاقے غازی پور میں واقع افیون ساز فیکٹری کا ایک مزید بیرونی منظر  واضح رہے کہ ایسٹ انڈیا  کمپنی کے دور کی یہ فیکٹری آج بھی قائم ہے اور بھارتی حکومت کی زیر نگرانی اور زیر سرپرستی کام کررہی ہے 
بھارت میں موجود افیون ساز فیکٹری کا ایک منظر




وارن ہیسٹنگز، بعد میں مشہور افیون کی جنگ کی وجہ سے 1780 میں بھارت کے پہلے گورنر جنرل کے ساتھ شروع کیا گیا تھا جس سے چین کو برآمد افیون [1839-1842] جدید دنیا کی تاریخ کا.
"تو پھر صورت حال کی ادائیگی کا ایک بہت بڑا توازن چین اور چین بہت زیادہ مقدار میں برآمد کیا گیا تھا کے سلسلے میں مسئلہ تھا. آج کی بھی اسی طرح تھا، لیکن کسی بھی یورپی اشیا درآمد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی. ہیسٹنگز خیال کے ساتھ آیا تو تھا صرف اس توازن تجارت کے راستے چین کو افیون برآمد کرنا تھا "، امیتابھ گھوش اپنے ان گنت انٹرویوز میں سے ایک میں وضاحت کی.
گھوش کی 'لت' ناول بھی چائے کے لئے برطانوی بھوک پر روشنی ڈالی ہے اور اسی طرح وسطی بھارت کمپنی تقریبا بعد چین تباہ کرنے پر چلا گیا جو افیون اگانے مشرقی بھارت مجبور کسانوں کی گنگا میدانوں میں تباہی تباہ ان کی بھوک کو مطمئن. تاہم، تجارت کے آخر میں بھارت میں برطانوی راج مالی جس پونڈ کے دو لاکھوں سالانہ کے بارے میں کمپنی نکلا.
اور، افیون کی برطانوی میراث مدھیہ پردیش میں نیمچ میں 1935 میں قائم ایک اسی طرح کی ایک اور فیکٹری کے ساتھ جاری رکھا. نیمچ فیکٹری، اگرچہ، ایک جدید میں سے ایک ہے لیکن Ghazipur اب بھی سب سے بڑا اور سب سے بڑا ایشیا میں نہ صرف بلکہ دنیا تنظیم اور ملک کے غیر ملکی ذخائر کو بھرنے کے لئے منافع بخش بنا رہی ہے.
فیکٹری کے وسیع و عریض کیمپس میں اس کی اپنی چار بستروں والے ہسپتال، جدید اتیتگرہ اور عملے کے رہائش ہے. یہ بھی جدید یادگار اضافے کر رہے ہیں جس میں آر اینڈ ڈی سیکشن اور Alkaloid یونٹ ہے. فیکٹری کا اپنا پانی کے ٹینک اور اس ضلع کے بجلی اور پانی کی کمی والے علاقوں سے الگ الگ کرتا ہے کہ طاقت کا نظام ہے.











No comments:

Post a Comment