پاکستان میں ہیروئین کا استعمال

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ہیروئین پینے والا ملک ہے 1978میں پاکستان میں ہیروئین کا استعمال کرنے والا ایک فرد بھی نہیں تھا مگر1996میں پاکستان میں17لاکھ48 ہزار افراد ہیروئین استعمال کرتے تھے 2000میں ہیروئین ، استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور ان کی تعداد یکدم سے 40لاکھ کے قریب پہنچ گئی گویا کہ محض چار سال میں تین سو گنا سے بھی بڑھ گئی ہے جو کہ ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے ۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ کراچی جو کہ پاکستان کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا شہر ہے ہیروئین کے اسمگلروں اور ہیروئینچیوں کی زد میں بری طرح سے ہے ادارہ تحقیق و تفتیش کی جانب سے کئے گئے سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ اس وقت کراچی کے ہر علاقے اور ہر بڑے محلے کو ہیروئین مافیا نے اپنے نرغے میں بری طرح سے لے رکھا ہے ادارہ تحقیق و تفتیش کے سروے میں جو زاہد نہاری ہوٹل کے سامنے ،اسٹوڈنٹس بریانی کے سامنے ، ایمپریس مارکیٹ ،جہانگیر پارک،ایم اے جناح روڈپر صابری نہاری کے سامنے ،برنس روڈ پر ملک نہاری کے سامنے ، پٹیل پاڑہ ،گارڈن ، لیاری ، میں بلوچستان جانے والی بسوں کے ا ڈے کے سامنے لیاقت آباد میں سپر مارکیٹ کے سامنے ، ناظم آ باد، نیو کراچی، آلاصف اسکوائیر پر گلزار ہجری تھانے کی چوکی کے سامنے ،نیپا، صفورہ گوٹھ پر سچل تھانے کے سامنے ، پہلوان گوٹھ،ناتھا خان گوٹھ،عیسیٰ نگری،ناظم آباد دو نمبر ،حبیب بنک ، شیرشاہ، بنارس چوک ملیر مندر،ملیر بکرا پیڑی،قائد آباد پر اور ریلوے پل کے نیچے
مارکیٹ کے ساتھ کورنگی ، بھینس کالونی، شیریں جناح کالونی میں، جیکسن تھانے کی حدود میں مچھر کالونی میں اور ماری پور پربلدیہ میں موچکو تھانے کے علاقے موچکو اور کراچی کے بہت سے علاقوں میں کیا گیا یہ بات سامنے آئی کیہ اس وقت کراچی میں اگر چے کہ کہیں بھی ہیروئین فروشی کے اڈے موجود نہیں ہیں یا اس طرح سے کہیں بھی ہیروئین فروخت نہیں ہو رہی ہے جس طرح سے ماضی میں باقائدہ اڈووں کی شکل میں ہیروئین فروخت کی جاتی تھی مگر اس وقت تمام کراچیء میں ہیروئین فروخت ہو رہی ہے اور علاقے کی پولیس اس تمام کاروبار میں ایک طرح تو حصہ دار ہے دوسری جانب سرپرست بھی ہے کیونکہ پولیس کی رضامندی اور سرپرستی کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ہیروئین کا کاروبار کر سکے کیونکہ کراچی میں ہیروئین استعمال کرنے والے افراد کی تعداد اب دو ملین سے زائد ہو چکی ہے جو کہ روزآنہ ہیروئین کو خریدتے اور استعمال کرتے ہیں اور اب کراچی شہر میں ہر جگہ نظر آجائیں گے ادارہ تحقیق و تفتیش کی جانب سے کئے گئے سروے میں یہ بات سامنے آ ئی کہ نئی نسل زیادہ تر زہریلی ہیروئین کا شکار بن رہے ہیں جس کے بہت سے اسبا ب کی جانب اوپر تذکرہ کیا جاچکا ہے مگر سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ بعض کھانے پینے کی اشیاء مثلاپان ،گٹکا ، سپاری ، اور چھالیہ میں مکس کرکے ہیروئین کا عادی نئی نسل کو بنایا جارہا ہے کراچی یونیورسٹی کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق یہ حیرت ناک انکشاف اس طرح سے ہوا کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا میں پاکستان اور بھارت میں تیار کردی سونف سپاریوں کے 36 نمونوں کا لیبارٹری تجزیہ کیاگیا ان میں 9نمونوں میں ہیروئین اور 10میں مارفین کی ملاوٹ پائی گئی اس طرح یہ بات سامنے آئی کہ مختلف زرائع اور طریقوں سے ہیروئین کے سپلائیر اور بیوپاری نئی نسل کو ہیروئین کا عادی بنانے کی کوشش کرہی ہے
ادارہ تحقیق و تفتیش کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق اس وقت کراچی میں ہیروئین مختلف زرائع سے لائی جارہی ہے زیادہ تر یہ ہیروئین کوئیٹہ سے بذریعہ بس لائی جاتی ہے اس کے کئی طریقے کار ہیں ایک تو مشہور اور بدنام طریقے کار ہے کہ خالی پیٹرول ٹینکروں میں لائی جائے یہ اگر چے بظاہر بہت آسان ہے مگر اب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ کوئی بھی اس طریقے کار پر توجے نہیں دیتا ہے دوسرطریقے کار یہ ہے کہ کوئیٹہ اور بلوچستان سے آنے والے مسافراپنے ساتھ سامان میں ہیروئین اور دیگر منشیات لائیں مگر اکثر اوقات بھاری مقدار میں ہیروئین لائے جانے پر کوسٹ گارڈ کی اوتھل چیک پوسٹ پر یہ چیکنگ کے دوران یہ برآمد کر لی جاتی ہے اس لئے اکثر بیشٹر بعض خواتین کے زریعے کلو یا ادھا کلو ہیروئین ان کے جسم کے ساتھ باندھ کر یا ان کے برقعوں میں پوشیدہ کرکے لائی جاتی ہے( اگر چے کہ یہ آسان تو ہے مگر اس کے زریعے سے زیادہ مقدار میں ہیروئین نہیں لائی جا سکتی ہے ) کے زریعے منشیات اسمگل کرنے والے ایک طریقہ اور بھی استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنا مال اوتھل سے پہلے کسی بھی مقام پر محفوظ کرلیا جاتا ہے پھر موقع غنیمت دیکھ کر یا مکھ مکا کرکے رات کے اندھیرے میں کراچی بیھیج دی جاتی ہے اس کا تیسرا طریقہ جس پر زیادہ عمل کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئٹہ سے منشیات اور ہیروئین خضدار تک لائی جاتی ہے پھر اس کو ساحل مکران پر لے جاکر لانچوں کے زریعے اور دیگر زرائع سے کراچی تک لے جایا جاتا ہے یا پھر یہ منشیات اور ہیروئین خضدار سے بذریعہ سڑک شہداد کوٹ لے جائی جاتی ہے اس کے بعد یہ مختلف راستوں اور طریقوں سے کراچی لائی جاتی ہے اور اس منشیات کو کراچی سے باہر گڈاپ ٹاؤن کے گوٹھوں میں اور سبزی منڈی میں محفوظ کرلیا جاتا ہے جہاں سے مختلف زرائع اور طریقوں سے یہ منشیات تمام کراچی میں تقسیم کردی جاتی ہے یہ بات واضح رہے کہ ادارہ تحقیق و تفتیش، کی جانب سے کئے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ پولیس کی رضا مندی ہی کے ساتھ یہ کاروبار تمام کراچی میں کیا جارہا ہے اور لاکھوں ہیروئینچیوں کو روزآنہ ہیروئین فراہم کی جارہی ہے
بقیہ ؔ ؔ آئیندہ ہیروئین چرس افیون، شراب، مارفین پیتھوڈین،اور دیگر منشیات کا استعمال پاکستانی معاشرے میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے اس وقت پاکستانی سوسائٹی کی جڑیں یا بنیادیں بہت حد تک متاثر ہو چکی ہیں UNDCP کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد40لاکھ سے بڑھ چکی ہے جن میں 52فیصد عادی شہروں میں مقیم ہیں ان میں سے پانچ لاکھ افراد ہیروئین کے عادی ہیں جن کی بڑی اکثریت سڑکوں کے کنارے پر پڑی ہوئی نظرآتی ہے جب کہ گندے نالوں اور پلوں کے نیچے بھی ان کی بڑی اکثریت دکھائی دے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل منشیات کیا ہیں؟ اپاکستان سے اس کا کیا تعلق ہے اس پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جائے
یہ بات واضح رہے کہ افیون ،چرس ،مارفین ، ہیروئین کاآپس میں گہرا تعلق ہے ان تمام کا بنیادی جزو افیون ہے پاکستان میں زمانہ قدیم ہی سے افیون پیدا ہو رہی ہے کہا جاتا ہے کہ یہ سوغات سکندراعظم اپنے ساتھ مصر سے برصغیر پاک و ہند لایا تھااسکے جرنیلوں کے پاس افیون کی بہت بھاری مقدار ہر وقت موجود رہتی تھی تاکہ زخمیوں کو بوقت ضرورت علاج اور سکون کے لئے فراہم کیا جاسکے سکندر اعظم کے بعد سے افیون جسے پوست کہا جاتا ہے برصغیر میں باقائدہ کاشت کی جانے لگی اور بعض مقامات پر تو یہ خود رو ہی پیدا پہونے لگی مغل حکمران جہانگیر افیون کا عادی تھا اور اس درجہ افیون کا شوقین تھا کہ اس کے آخری دور میں اس کی کتابوں اور شاعری میں افیون کا بہت تذکرہ ملے گا برصغیر میں اس کی باقائدہ تجارت انگریزوں کا آمد کے بعد شروع ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی ،کے مشرق بعید جانے والے بحری جہازوں میں افیون بطور سامان تجارت شامل کیا جانے لگا اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر اور افسران بر صغیر ہند و پاک سے افیون مشرق بعید ، ہند چینی اور چین لے جاتے تھے اس کے عوض وہاں سے ریشم اور مصالحہ جات اپنے جہازوں پر لادتے جن کو وہ مشرق وسطیٰ، خلافت عثمانیہ اور یورپ لے جاتے اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے افیون کی تجارت انتہائی اہم ترین تھی افیون کی تجارت ہی کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی اس قابل ہوئی کہ اس کی دولت کے زریعے کلکتے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کرلیں جو کہ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قلعوں میں تبدیل ہو گئے جہاں فوجی سازو سامان سے لیس ایسی افواج مقیم ہونے لگیں جنہوں نے بعد میں ارد گرد کے علاقوں پر اپنا قبضہ جمالیا اور یوں ایسٹ انڈیا کمپنی بعد میں ایسی مملکت میں تبدیل ہوگئی جہاں کبھی بھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا یہ بڑی ہی دلچسپ بات ہے اور تاریخی انکشاف ہے جو کہ اس وقت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بنک ؔ ف انگلینڈ اور بنک آف ہالینڈ اسی افیون یا منشیات کی تجارت کے نتیجے میں پروان چڑھے تھے یہ بات واضح رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے چین میں افیون کی بڑھتی ہوئی تجارت کو روکنے کے لئے اور چینوں کو تباہی سے بچانے کے لئے چین کے حکمرانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی پر پابندی عائد کردی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے لائے جانے والے سامان تجارت میں افیون شامل نہیں ہوگی کیونکہ اس وقت کے چینی بادشاہ کے خیا ل کے مطابق افیون کی وجہ سے ایک جانب تو چینی دولت بیرونی دنیا جارہی ہے دوسری جانب چین کے نوجوانوں کی اکثریت نشے کا عادی بن کر تباہی کا شکار ہو رہی ہے جو کہ چین کے لئے انتہائی نقصان دے ہے مگر چین کے حکمرانوں کی جانب سے افیون کی تجارت پر پابندی اس وقت عائد کی گئی جب پانی سر سے گزر چکا تھا معاملات ان کے قابو سے نکل چکے تھے اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس فوجی طاقت آچکی تھی اور چینیوں کی اکثرت افیون کی عادی بن چکی تھی اس لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں نے فوج بھرتی کرکے اور اس وقت کے جدید اسلحہ کے زریعے 1839 میں چینی حکومت کے خلاف لشکر کشی کی 1856تک جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی حکومت کو شکست فاش نصیب ہوئی اور ایسٹ انڈیاکمپنی فاتح بنی فتح کے نتیجے میں جہاں بہت سامال غنیمت حاصل ہوا وہیں پے ہانگ کانگ کا ؂جزیرہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاصل ہوا اس کے ساتھ ہی ایک سو سال تک کے لئے چین کا اقتدار بھی حاصل ہوا جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی بلا شرکت غیرے چین میں تجارت کے تمام سوتوں کا مالک بن بیٹھی انگریزوں نے منافع کے حصول اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لئے افیون کو چین میں اس طرح سے رائج کردیا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق چین کا ہر چوتھا شہری افیون کا عادی ہو چکا تھا